آپ بھی ہر صبح یہ دیکھ دیکھ کر اکتا چکی ہیں کہ بچہ سکول جاتے وقت نت نئے بہانے تراشتا ہے۔ ہر دوسرے روز تیاری کے دوران اس کے معدے میں اینٹھن شروع ہو جاتی ہے ‘ اچانک سر میں درد ہونے لگتا ہے اور آخری بات سکول جانے سے گریز کی صورت سامنے آتی ہے۔ آپ کو کم و بیش دھکیلتے ہوئے اسے لے جاکر وین میں بٹھانا پڑتا ہے اور جب آپ ایسا کررہی ہوتی ہیں تو اس کی متواتر چیخ و پکار اور رونا دھونا شرمندگی میں مبتلا کردیتا ہے لیکن کبھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس وقت کیا کروں؟۔آپ بھی یہی چاہیں گی کہ آپ کا بچہ بھی دوسرے بچوں کی طرح خوشی خوشی سکول جائے اور ماحول کا لطف اٹھاتے ہوئے تعلیم حاصل کرے۔آپ کی فکر مندی بالکل بجا ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، ہم آخر وہ وجوہات تلاش کیوں نہیں کرتے کہ جو اس مسئلے کا حل ہوں۔
اکثر اوقات ایسے بچوں کے دل میں سکول جانے سے کہیں زیادہ خوف گھر کو چھوڑ کر جانے کا ہوتا ہے۔ اگر والدین میں سے کوئی بیمار ہوتو بچہ یہ محسوس کرسکتا ہے کہ وہ اگر والدین کو چھوڑ کر چلا گیا تو انہیں کچھ ہو نہ جائے، اس کی عدم موجودگی میں کوئی ایساواقعہ نہ ہو جائے جو کہ اس کی سوچ سے بڑھ کر ہو۔ اگر اس نوعیت کی بات والدین کو محسوس ہوتو وہ بچے کو اپنے پاس بٹھا کر پیار سے سمجھائیں کہ انہیں کچھ نہیں ہوگا، اسے اس بات کی یقین دہانی کرانے کی کوشش کریں کہ تم یہاں نہ ہوکر بھی ہمارے پاس ہو اور جب سکول سے تمہاری واپسی ہوگی تو ہم تمہیں یہاں ہی ملیں گے‘‘۔ آپس کی اس ہم آہنگی کو بڑھاتے ہوئے یہ نکتہ فراموش نہ کریں کہ ’’تمہیں لازمی طور پر سکول تو جانا ہے‘‘۔ بہت سے والدین بچے کی ضد کے آگے بڑ ی آسانی سے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور کسی معمولی بہانے کے بعد بھی سکول کی چھٹی کرادی جاتی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔بعض بچے سکول جانے سے اس لئے احتراز کرنے لگتے ہیں کیونکہ انہیں کسی خاص ٹیچر سے خوف یا ڈر محسوس ہوتا ہے اور یا ایسا ماحول جہاں وہ خود کو مطمئن اور آرام دہ محسوس نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں یہ معلوم کرنے کی کوشش لازمی ہے کہ بچے کو سکول میں غیر معمولی حالات یا مشکلات کا سامنا تو نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کلاس روم میں اسے ساتھیوں نے مسترد کرکے توجہ کے قابل ہی نہ سمجھا ہو یا پھر اسے چڑانے اور بے تکے مذاق کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہو۔ اگر ایسی کوئی بات ہے تو گھر واپسی پربچے کی بات بغور سننے اور اس کی مشکل کو سمجھنے کی کوشش کریں جبکہ اپنے طور پر تحقیق کرکے اس مشکل کو ختم کرانے کی سعی بھی کیونکہ اس کا مطلب یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ کا بچہ سکول کے مقررہ وقت سے بہت پہلے پہنچ جاتا ہو یا وین کے انتظار میں اسے کافی دیر تک سکول میں رکنا پڑتا ہو، ساتھیوں کی جانب سے اس نوعیت کی مشکلات ایسے اوقات میں ہی پیش آتی ہیں ۔ اس حوالے سے بچے کی ٹیچر اور اس کے دوستوں سے بھی بات چیت کریں تاکہ وہ پہلو سامنے آسکیں جن سے مسئلہ حل کرنے میں آسانی پیدا ہوسکے۔ آپ کو جب کچھ مشکلات سے آگاہی ہو جائے خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی کیوں نہ ہو تو ان کی رپورٹ سکول کی پرنسپل اور کلاس ٹیچر کو ضرور کریں جو کہ ضروری کارروائی کرکے اس امر کو یقینی بناسکیں کہ بچہ خود کو سکول میں مطمئن اور پرسکون محسوس کرسکے اور پورے اعتماد سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے۔
پہلے دن سکول جانے والے بچوں کےمسائل کا حل
اس وقت تو سکول جانے کا خوف ایک لازمی امر ہے جب آپ کا بچہ یا بچی پہلی مرتبہ سکول جانے کے لیے تیار ہورہے ہوں یہ بالکل قدرتی سی بات ہے کہ بچہ آپ کو آسانی سے چھوڑنے پر رضا مند نہیں ہوتا جس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کلاس روم میں اماں بھی ساتھ جائیں اور اس کے ساتھ بیٹھی رہیں جو کہ ناممکن سی بات ہے۔ ایسے مواقع پر غیر یقینی حالات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور بالکل نئے تجربات بھی ہوتے ہیں لہٰذا بچے کی مدد کرنے کے لیے نیا سال شروع ہونے سے قبل اسے کئی مرتبہ اپنے ساتھ سکول لے کر جائیں، اسے کلاس روم اور وہاں موجود بچوں کو دیکھنے کا موقع دیں۔ وقفے کے دوران کھیلتے کودتے بچوں کو دیکھ کر اسے بھی ان میں شامل ہونے کا شوق پیدا ہوگا اور سکول اس کے لیے کوئی نئی جگہ نہیں ہوگی جب اسے پہلی مرتبہ اس امتحان سے گزرنے کاموقع ملے گا۔ اگر آپ کے پاس کچھ فارغ وقت ہے تو بچے کو سکول لے جاکر کلاس ٹیچر کی اجازت سے اسے کچھ دیر کے لیے وہاں بٹھائیں تاکہ وہ اس ماحول سے ہم آہنگ ہو جائے۔ دن کا کچھ حصہ وہاں گزارنے سے اس جگہ کا نیا پن اس کے ذہن سے جاتا رہے گا اور وہ سکول کی زندگی شروع کرتے ہوئے کسی بھی چیز کو نیا محسوس نہیں کرے گا۔یاد رہے کہ جو والدین اس تکنیک کا سہارا لیں وہ رفتہ رفتہ اپنی موجودگی کو کم کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ آپ کے بغیر کلاس روم میں بیٹھنے کی عادت ڈال لے اور جب باقاعدہ طور پر سکول آنا شروع کرے تو اس کے دل میں کسی قسم کا ڈر یا خوف نہ ہو۔
جب بچہ سکول جانے کے قابل ہو جائے اور آپ یہ سمجھیں کہ اس کا داخلہ سکول میں ہو جاناچاہئے تو اسے ایسی تصاویر اور ویڈیوز دکھائیں جس میں سکول کے بچوں کو کلاس روم میں بیٹھے یا کھیلتے کودتے دکھایا گیا ہو جو کہ ماحول کا لطف اٹھا رہے ہوں۔ بچوں کو سکول سے متعلق قصے اور کہانیاں سنانا اور اس دوران کھیلنے کودنے، پینٹنگ، ٹیبلو اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں سے آگاہ کرنا بھی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ ان تمام تجاویز کے ساتھ ہی ایک انتہا پسندانہ اپروچ بھی اپنائی جاسکتی ہے جو کہ اکثر کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ بچے کو تیار کرکے گاڑی میں بٹھائیں اور سکول کے احاطے میں داخل کرکے واپس آجائیں۔ ایسی صورتحال بچے کو بُری طرح اپ سیٹ کردے گی لہٰذا پہلے سے اس بات کا انتظام کریں کہ اس وقت کلاس ٹیچر یا کوئی دوسرا فرد اس کی دلجوئی کرے اور وہ اطمینان محسوس کرنے لگے کہ یہاں بھی اس کی دیکھ بھال کی جارہی ہے۔ یہ طرز عمل بچے اور ٹیچر کے مابین ایک ایسا رشتہ قائم کردے گا جس کے بعد بچہ سکول کے ماحول میں اجنبیت یا بے سکونی محسوس نہیں کرتا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ والدین اس طریقے کو کسی حد تک ظالمانہ محسوس کرتے ہیں اور انہیں یہ احساس رہتاہے کہ گویا وہ بچے کے ساتھ ٹھیک نہیں کررہے لیکن انہیں تسلیم کرلینا چاہئے کہ بچہ ہمیشہ اپنے گھر میں نہیں رہے گا اور نہ ہی وہ اس کے ساتھ ہمیشہ سکول میں رہ سکتے ہیں لہٰذا اسے اپنے آپ پر بھی انحصار کرنے دیں۔
ممکن ہے کہ سکول میں پہنچ کر پہلی مرتبہ بچہ یہ دیکھ کر اپ سیٹ ہو جائے کہ والد یا والدہ اسے چھوڑ کر چلی گئی ہیں مگر یاد رکھیں کہ اسے اطمینان دلانے کے لیے ٹیچر وہاں موجود ہے اور وہ اس مسئلے کو بہت جلد اور کہیں آسانی سے حل کرلے گی۔ والدین کے طور پر ہمیں بچوں کوبہت جلد یہ بات سکھا دینا چاہئے کہ ان کا الگ ہونا ہی (باقی صفحہ نمبر 59 پر )
(بقیہ:پہلے دن سکول جانے والے بچوں کےمسائل کا حل)
ان کے لیے بہتر ہے لہٰذا ابتدائی برسوں سے ہی یہ کوشش کی جائے کہ بچہ کسی حد تک آزادی اور خودمختاری کو سمجھنے لگے۔ سکول جانا اور تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے اور بطور والدین آپ کا یہ فرض ہے کہ پہلی مرتبہ میں ہی نہیں کسی بھی وقت سکول جاتے ہوئے اسے کسی ڈر یا خوف کا شکار ہونے دیں۔ سکول کا ناخوشگوار ماحول بھی اس پر اثر انداز نہ ہو جہاں گھر جیسی سہولتیں اور پیار یا محبت نہیں مل سکتی۔ سکول جانے والے بچے رفتہ رفتہ ماں باپ سے دور ضرور ہونے لگتے ہیں لیکن ان میں اپنے آپ پھر بھروسہ کرنے کی عادت بھی پڑجاتی ہے وہ خود پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں